عالمی دہشت گردی
بائبل اور قرآن کریم کا موقف
(کیا واقعی قرآن کریم
دہشت گردی کی حمایت واشاعت کرتا ہے؟ کیا بائبل صرف کتاب
امن ہی ہے؟ کیا بائبل دہشت گردی کی حمایت و اشاعت
نہیں کرتی ہے؟)
راسخ العقیدہ ہی نہیں
بلکہ ہر مسلمان خاص و عام شہری ہو یا جاہل ہو یا عالم کالا ہو یا
گورا مشرق کا ہو یا مغرب کا سب کا یہ یقین کامل ہے کہ
قرآن کریم کلام الٰہی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف
سے خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہواہے
ساری مخلوق کیلئے سراسر خیر اور ہدایت (ہدیً
للناس)
ہے اس کا نازل کرنے والا الرحمن والرحیم ہے اورجس ذات گرامی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ
کلام الٰہی نازل کیاگیا وہ رحمة للعالمین ہے سید
الانبیاء والمرسلین ہے عربی جاہلیہ دور کے مطابق بھی
وہ ذات گرامی الصادق الامین ہے اور وہ فرشتہ جو اللہ تعالیٰ
کی طرف سے اس کلام مقدس کو خاتم الانبیاء والمرسلین کے پاس لایا
ہے وہ سید الملائکہ روح الامین اور روح القدس ہے بھلا ایسی
کتاب جس کے نازل کرنے والے ارحم الراحمین ہوں اور جس پر نازل کی گئی
وہ رحمة للعالمین ہو اور وہ فرشتہ جس کے ذریعہ یہ کتاب مقدس
نازل کی گئی وہ روح الامین (امانت کی روح) ہو بھلا ایسی
کتاب دنیاء میں دہشت گردی کیسے پھیلاسکتی
ہے۔ جو کتاب بذات خود ہی ہدی للناس اور ہدی للمتقین ہو وہ امن وچین خیر و خوشی
اور فلاح فی الدارین کے علاوہ کوئی ذرا سی بھی بری
چیز نہیں پھیلاسکتی جس سے انسانیت کو نقصان پہنچے
اس کتاب کے اندرجو خیروخوبی اورامن وآشتی کاپیغام روز اول
سے رکھا گیاتھا وہ آج بھی بعینہ اسی حالت میں
موجود ہے کیونکہ اس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری بذات خود
اللہ تعالیٰ۔ الواحد القہار اور القادر المطلق نے لی ہے جیسا
کہ سورة الہجر میں آیت نمبر۹ میں اللہ تعالیٰ
نے اس حفاظت قرآن کا ذکر کیا ہے ”انا نحن
نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون“ لیکن فساد برپا کرنے والوں نے قتل وغارت کے علم
برداروں نے اصلاح کے نام پر فساد ظلم کرنے والوں نے خیر کو شر، شر کو خیر
کہنے والوں نے اپنے ظلم وزور اور نیوکلیائی قوت اور صحافت کی
(میڈیا) کی بے پناہ اشتہاری طاقت کی بنیاد پر
کمیونسٹ روس کے زوال کے بعد ۱۹۹۰/ کی دہائی
کے اوائل سے اور خاص طور پر امریکہ پر ۱۱/۹ کے حملے کے
بعد مسلمانوں کو دہشت گرد اور قرآن کریم جیسی سراپا ہدایت
والی کتاب کو دہشت گردی کو پھیلانے والی کتاب اور اسلام
کو دہشت گردی کا دین کہنا شروع کردیا، کیا واقعی دین
اسلام دہشت گردی کا دین ہے؟ کیا واقعی قرآن کریم
دہشت گردی سکھاتا ہے؟ ان سوالات کا جواب تو انشاء اللہ مدلل طور پر اسی
مضمون میں ذرا تھوڑی دیر میں دیا جائے گا۔
پہلے اب بائبل کی امن پرستی کا حال بھی سن لیجئے تاکہ
دہشت گردی کے سلسلہ میں قارئین کرام کو آسانی سے قرآن کریم
اور بائبل کی آراء معلوم ہو اور دونوں کس حد تک دہشت گردی کو بڑھاوا دیتی
ہیں یا امن قائم کرتی ہیں، اس کا فیصلہ قارئین
کرام خود بھی آسانی سے کرسکیں۔ لیجئے اولاً بائبل
کا موقف امن وامان اور دہشت گردی کے سلسلے میں پڑھ لیجئے، لیکن
امن و امان یا دہشت گردی کی بائبل کی وضاحت سے قبل تھوڑی
سی جانکاری بائبل کی بھی بذات خود جان لیجئے تاکہ
حقیقت مکمل طور پر واضح ہوجائے۔ بائبل کے لفظی معنی کتاب
کے ہیں۔ یہ کتاب یہود ونصاریٰ دونوں قوموں کے
نزدیک مقدس کتاب ہے اس کے دو بڑے حصہ ہیں اول حصہ بڑا ہے جسے عہدنامہ
قدیم کہا جاتا ہے اور دوسرا حصہ عہدنامہ جدید کہلاتا ہے۔ جو
پہلے کے مقابلہ میں قدرے چھوٹا ہے۔ پروٹیسٹنٹ بائبل کے مطابق (The Holy Bible-King James version-17 century) عہدنامہ قدیم میں انتالیس کتابیں یا
صحیفے ہیں اس حصہ کا تعلق شرعاً اور تاریخاً یہودیوں
سے ہے جس میں ابتدائے کائنات سے لے کر آدم اور حوا علیہما السلام کی
پیدائش، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ
السلام اور بنی اسرائیل کے دیگر انبیاء علیہم
الصلوٰة والسلام اور بزرگوں کے واقعات مندرج ہیں اس کتاب کے آخری
نبی ملاکی علیہ السلام ہیں جن کے متعلق ایک چھوٹا
صحیفہ اس کتاب میں موجود ہے۔ دوسرا حصہ یعنی
عہدنامہ جدید نصاریٰ سے متعلق ہے اس میں چھوٹی بڑی
ستائیس کتابیں ہیں سب سے پہلی کتاب انجیل متٰی
(سوانح عیسیٰ علیہ السلام) اور سب سے آخری کتاب
مکاشفات (Revelation by st.Johne) ہے یہود صرف عہدنامہ قدیم کو مانتے ہیں ان کا
عہدنامہ جدید سے کوئی تعلق نہیں جبکہ عیسائی خاص
طور پر عہدنامہ جدید کو مانتے ہیں اسی پر شریعت عیسوی
کا انحصار ہے، لیکن تلاوت کی حد تک عہدنامہ قدیم کو بھی
مانتے ہیں اور عہدنامہ قدیم اور عہدنامہ جدید دونوں کے درمیان
تقریباً ۱۴-۱۵ کتابوں کے مجموعے اپوکرائفا (مشکوک
مگر قابل قرأت کتب ماورائے شرعی فہرست) کو بھی کافی اہمیت
دی جاتی ہے جیساکہ ملکہ وکٹوریہ کے تاج پوشی کے وقت
رونما ہونے والے واقعہ سے ثابت ہے۔ واقعہ یوں ہوا تھا کہ تاج پوشی
کے وقت بائبل کا جو نسخہ حلف کے لئے لایاگیا تھا اس میں
اپوکرائفا نہ ہونے کی وجہ سے اس کی جگہ دوسرا نسخہ لایاگیا
تھا جس میں اپوکرائفاموجود تھا (Bible in the
making by Mac. Gregore-1961 p...) بعض نصاریٰ
عہدنامہ قدیم کو بھی شرعاً تسلیم کرتے ہیں لیکن بعض
نہیں کرتے جیساکہ امریکن پروفیسر عمرفاروق عبداللہ شکاگو
کا قول ہے جسے انھوں نے مجھے بذات خود ایک ملاقات میں بتلایا۔
عہدنامہ قدیم عہد نامہ جدید اور اپوکرائفا تینوں حصوں کا مشترکہ
نام بائبل ہے مندرجہ بالا تمہید کے بعد قرآن کریم پر دہشت گردی
کی حمایت کا الزام لگانے والے (یہود ونصاریٰ)
بائبل۔ عہدنامہ قدیم اور جدید دونوں کا بھی ضرور مطالعہ
کرلیں تاکہ بائبل کا موقف بھی اس سلسلے میں سامنے آجائے مثلاً
عہدنامہ قدیم کی ایک کتاب زبور (Psalms) کے باب ۱۳۷ آیات
۷-۸ کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں:
O
Babylone Babylone the Destroyer
Happy the
man who repays you
For all
that you did to us
Happy is he
who shall seize your children
And dash
them against the rock
(The new
English Bible- Oxford university Press; Cambridge university Press-1970)
”اے بابل اے بابل ہلاک کرنے والے بابل (نتیجتاً
ہلاک ہونے والے) بابل وہ مبارک ہوگا جو تجھ کو اس سلوک کا بدلا دے جو تونے ہم سے کیا
ہے وہ شخص یا ملک مبارک ہوگا جو تیرے بچوں کو پکڑکر چٹان پر پٹک دیگا“۔
قارئین کرام آپ خود فیصلہ کریں
کیا اس زبوری نغمہ کو پڑھ کر کسی یہودی یا عیسائی
کے دل میں بابل یعنی موجودہ عراق کو تباہ کرنے کا ولولہ پیدا
نہ ہوگا؟ کیا موجودہ زمانہ میں ۱۹۹۱/ اور
۲۰۰۳/ میں مغربی دنیا کے عراق پر حملے
بائبل کی ان آیات کی تحریض و ترغیب کی وجہ سے
نہیں ہے لیکن ایک مسلمان کیلئے کسی بھی حال میں
عدل و انصاف کا دامن چھوڑنے کی نہ تو قرآن کریم اجازت دیتا ہے
اور نہ ہی حدیث شریف۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں
ان آیات کا پس منظر جانے بغیر تو ان آیات بائبل پر دہشت گردی
کو پھیلانے کا الزام لگایا جاسکتا ہے لیکن ان آیات کا پس
منظر جاننے کے بعد شاید قارئین کرام کو اپنی رائے بدلنی
پڑے گی ان آیات کا تعلق بنی اسرائیل کے بابل میں
ستر سال تک اسیر ان ہزاروں بنی اسرائیلی قیدیوں
سے ہے جنھوں نے بابل کے ظالم و جابر بادشاہ بخت نصر کے ہاتھوں اپنی قوم کی
قتل و غارت گری اور تذلیل دیکھی تھی جس نے ارض مقدس
اور خاص طور پر ہیکل سلیمانی کو ان کی آنکھوں کے سامنے ہی
نذر آتش کرکے نیست و نابود کردیا تھا یہ ان کے رنج و غم اور
کڑھن کی داستان ہے جس کا اظہار ان الفاظ میں کیاگیا ہے
اور (سلاطین ثانی باب ۲۴-۲۵) قرآن کریم
کے ساتھ بھی اگراسی طرح سے عدل و انصاف سے کام لیا جائے تو کوئی
بھی عاقل بالغ شخص قرآن کریم پر دہشت گردی کا الزام نہیں
لگاسکتا جن آیات قرآنی میں کفار و مشرکین کو قتل کرنے یا
ان کے ساتھ سختی برتنے کاحکم دیاگیا ہے ان کا پس منظر یا
شان نزول جانے بغیر ان کے سلسلے میں لب کشائی کرنا اور سیاق
و سباق سے الگ کرکے صرف ظاہری معنی ومطالب کی بنیاد پر
قرآن کریم پر دہشت گردی کو ہوا دینے کا الزام لگانا گویا
اللہ تعالیٰ کو ظالم و جابر اور غیر منصف ٹھہرانے کے مترادف ہے
جبکہ اللہ تعالیٰ ساری دنیا پر ماں کے مقابلے ستر گنا زیادہ
رحم کرنے والے ہیں اور گناہ کو بہت زیادہ معاف کرنے والے ہیں: ”ان
اللّٰہ یغفر الذنوب جمیعاً“ قرآن کریم کا دعویٰ ہے
”وما کان اللّٰہ لیظلمہم ولکن
کانوا انفسہم یظلمون“ ہر شخص مسلم وغیرمسلم اہل مشرق و مغرب کو جان لینا
چاہئے کہ قتل و قتال کی اجازت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں
صرف اس وقت دی تھی جب مسلمانوں کی تقریباً صد فیصد
آبادی بشمول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال
تک ایسے پِستی رہی جس طرح آٹا چکی میں پستا ہے آگ کی
بھٹی میں لکڑیاں جلتی ہیں کسی اسلامی
تاریخ کی کتاب سے مسلمانوں پر مکة المکرمہ میں تیرہ سالہ
مصائب و مظالم کی دل فرسا داستان کی تصدیق کی جاتی
ہے کہ صرف اللہ کو ایک اور اللہ ہی کو حق ماننے کی وجہ سے کتنوں
کو شہید کردیا گیا کتنوں کو ذلیل کیاگیا کتنی
عورتوں کا سہاگ لوٹا گیا اور کتنوں کو ان کے اہل خانہ کے سامنے ان مصائب سے
گزارا گیا جن کا بیان کرنا بھی آج کے جدید زمانے میں
ناقابل یقین معلوم ہوتا ہے۔ حضرت بلال، حضرت عمار بن یاسر، حضرت سمیہ، حضرت عمیر وغیرہ سیکڑوں اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خود
سرورکائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے مصائب اور رنج وغم جو آپ کو اس زمانہ کے کفار ومشرکین
سے سہنے پڑے انکو سن کر کوئی بھی شخص ان ظالموں کو سزا دینا یا
ان جیسوں کو آج بھی کیف کردار تک پہنچانے کے عمل کو دہشت گردی
یا ظلم و ستم کا نام نہیں دے سکتا زیادہ سے زیادہ رد عمل
کا نام دے سکتا ہے اور چونکہ مثال سے بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے اسلئے
بطور نمونہ کے مندرجہ ذیل واقعات پیش کئے جارہے ہیں جن سے ظاہر
ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں پر کفار ومشرکین کے ہاتھوں کن کن مصائب و مظالم کے
پہاڑوں کو توڑا گیا ان کے مظالم کے مقابلے میں جوکچھ رد عمل مسلمانوں
کی طرف سے قوت حاصل ہونے پر ان کفار ومشرکین کے ساتھ کیاگیا
وہ ان پر کئے گئے ظلم و ستم کے مقابلے میں بہت کم تھا مثلاً حضرت خباب ابن الارت کو کفار ومشرکین نے آگ کے انگاروں پر لٹادیا
یہاں تک کہ آپ کے جسم کے خون و چربی سے وہ انگارے ٹھنڈے ہوئے۔
حضرت عمار کے والدین کو اتنی بے دردی سے مارا گیا کہ وہ
سخت گرم ریتیلی زمین پر گھسٹتے ہوئے تڑپ تڑپ کر جان دینے
پر مجبور ہوئے آپ کی والدہ حضرت سمیہ کی شرمگاہ میں
ابوجہل ملعون نے برچھا مار کر ان کو شہید کردیا، ابوذر غفاری کو محض اذان کہنے پر بیہوشی کی حد تک ماراگیا
اوراگر چھوڑا بھی گیا تو وہ ان کی حالت پر رحم کھاکر نہیں
بلکہ اپنی دنیا کے مفاد کی حفاظت کی خاطر کیونکہ قریش
کے تجارتی قافلوں کا راستہ حضرت ابوذر غفاری کے علاقے سے گزرتا
تھا۔ حضرت ابوبکرصدیق کومکة المکرمہ کے
اشرف الاشراف ہونے کے باوجود مسجد حرام میں موت کی حد تک مارا گیا
یہاں تک کہ آپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے عرب میں
صادق و امین کہے جانے کے باوجود اہل باطل نے آپ کو ذلیل و خوار بھی
کیا آپ کے داماد ابوجہل کے بیٹے نے آپ کو صرف ذلیل ہی نہیں
کیا بلکہ آپ پر تھوکا بھی بعد میں ایک شیر نے اس کو
دوران سفر کھالیاتھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سجدے کی
حالت میں اونٹ کا اوجھ بھی ڈالا گیا جو اتنا وزنی تھا کہ
اگر اس کو آپ کی بیٹی فاطمہ آپ کے سر سے نہ اٹھاتی تو شاید
آپ کی موت واقع ہوجاتی اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا
بلکہ قریش نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو قتل کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پوری
کوشش کرڈالی، آپ کی حفاظت اگرآپ کے گھر میں یا آپ کے گھر
کے باہر اگر ہوئی تو وہ صرف خدائی نصرت کی وجہ سے ہوئی اس
میں کسی کافر ومشرک کی کوئی ہمدردی شامل حال نہ تھی
کفار ومشرکین نے تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے گھر سے چلے جانے کے بعد بھی سفر ہجرت میں بھی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چین
نہیں لینے دی یہاں تک کہ اس غار کو بھی سو اونٹوں
کاانعام پانے کے لالچ میں گھیرلیاجہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے یار
غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تین دن تک چھپے رہے
اور وہاں سے نکلنے پر بھی ان کا دنیا پر سب سے زیادہ حریص
سراقہ بن مالک تو اخیر تک آپ کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ اس
کو یقین آگیا کہ اس شخص یعنی خاتم النّبیین
سید الکونین کے ساتھ اللہ کی صاف نصرت ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بھی
حال میں نہیں پکڑسکتا اور رحمة للعالمین کی وسعت رحمت کی
ایک جھلک دیکھئے کہ اس حال میں بھی جبکہ سراقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑکر شہید
کرنے یا کرانے پر تلا ہوا تھا اس حال میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو معاف ہی
نہیں کیا بلکہ اس کو ملک فارس کسریٰ کے کنگن پہنائے جانے
کی بشارت بھی دیدی بھلا ایسے شخص یا اس کے
شاگردوں سے یا متبعین سے کیسے دہشت گردی کا صدور ہوسکتا
ہے جس کی فطرت میں ہی بھلائی داخل ہو جو سراپا بھلائی
ہی بھلائی ہو، قریش کو چھوڑئیے وہ قوت کے مالک ہونے کے
باوجود کورے جاہل تھے جیسا کہ انھوں نے خود ابوسفیان کی زبانی
یہودکے علماء کے سامنے اعتراف بھی کیا تھا جبکہ انھوں نے پوچھا
تھا کہ ہمارے معبود لات و عزیٰ وغیرہ عبادت کے زیادہ
مستحق ہیں یا خدائے محمد یعنی اللہ تعالیٰ تو
علمائے یہود کعب بن اشرف وغیرہ کی کتمان علم کی انتہاء دیکھئے
کہ تورات میں آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی حقانیت موجود ہونے کے باوجود اور خود یہود
کے موحد ہونے کے دعویٰ کے باوجود انھوں نے ایک اللہ وحدہ لاشریک
لہ اور خالق الکونین اورمالک الکونین کے مقابلے بے وقعت معبودان باطل
لات و عزیٰ وغیرہ کو عبادت کا زیادہ مستحق ٹھہرایا
جس کی وجہ سے مسلمانوں اور اہل باطل میں عرب ہی میں نہیں
بلکہ عرب کے باہر مسلمانوں اور غیرمسلموں میں ہزاروں سال جنگ چلتی
رہی بھلا آپ خود ہی سوچئے اس جنگ وجدل کے ذمہ دار کیا یہودیوں
کے آباواجداد نہیں ہیں (سورة النساء آیت ۵۱) اور کیا
اس زمانہ میں یہود ونصاریٰ کی اسلام دشمنی میں
کوئی کمی آئی ہے؟ کیا الفرقان الحمید جیسی
باطل کتاب لکھ کر قرآن حقیقی کو دنیا کی نظروں میں
باطل ظاہر کرنے کی ناپاک و ناکام کوشش نہیں کی گئی ہے
(۲۰۰۴/ - ۲۰۰۵/) اس طرح کے ایک
دو نہیں سیکڑوں واقعات کے بعد مجبوراً قرآن کریم کو مظلوم
مسلمانوں کو اپنی دفاع کی اجازت دینی پڑی جس طرح کہیں
بڑے شہر میں آگ لگ جانے پرآگ کو بجھانے والے عملے کے سامنے اگرکوئی شخص
آگ کو بجھانے میں حائل ہوجائے تو خبردار کئے جانے کے باوجود بھی اگر
وہ ان کے سامنے سے نہ ہٹے تو فائر بریگیڈ والے لاکھوں لوگوں کی
جانیں بچانے کی خاطر ایک بے وقوف شخص کی جان کی
پرواہ نہیں کرتے، پس یہ ہے وہ حکمت جس کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کی
جان و مال کی حفاظت اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ان کا جنت میں
دخول اور جہنم سے حفاظت کے خاطر ان دشمنان انسانیت کو راستے سے ہٹانے کی
اجازت اسلام نے دی ہے جن کے راستے سے نہ ہٹنے کی حالت میں
کروڑوں انسانوں کی دنیا ہی برباد ہوجاتی اورآخرت بھی
برباد ہوجاتی یا کم از کم خطرے میں پڑجاتی آیت قرآنی
ملاحظہ کیجئے ”اذن للذین یقاتلون بأنہم
ظلموا وان اللّٰہ علی نصرہم لقدیر الذین اخرجوا من دیارہم
بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ․․․“ (سورة حج آیت نمبر ۳۹
تا ۴۱) اوراگر کسی بھی زمانہ میں کسی بھی
وقت ایک مظلوم جماعت یا طبقہ کو دوسری ظالم جماعت یا طبقہ
سے اپنے دفاع کی اجازت نہ ہوتی تو زمین پر نیکی کا
نام و نشان باقی نہ رہتا۔ مسلمانوں کا بھی وجود چودہ سو سال ہی
قبل ختم ہوگیا ہوتا کیا دنیا نہیں جانتی کہ بدھ
مذہب ہندوستان میں ہی پیدا ہوا اور ہندوستان میں ظاہر ہوا
یہیں پر پلااور بڑھا لیکن اہنساء پرمودھرم (قتل وقتال ہرحال میں
ممنوع ہے اور عدم قتل وقتال ہر حال میں سب سے بڑا مذہب ہے) کی وجہ سے
ہندوستان سے باہر نکال دیاگیا ہندوستان کے باہر برما کمبوڑیا، ویت
نام، لااوس، چین، جاپان، کوریا حتی کہ روس اور وسطی ایشیاء
تک بدھ مذہب پھیل گیا لیکن ہندوستان میں اپنے ہی
گھر میں ہزاروں سال کے لئے نیست نابود ہوگیا جب تک جاپان کے پاس
اپنی قوت تھی اس کے دشمن دوسری جنگ عظیم کے اتحادی
ممالک اس کی طرف آنکھ اٹھاکر نہ دیکھ سکے لیکن امریکہ نے
ایٹم بم حاصل کرلیا تو قوت کا توازن بگڑنے کی وجہ سے جاپان
ناگاساکی اور ہیروشیماپرامریکہ کے ذریعہ ایٹم
بم ڈالے جانے کے بعد ایسا برباد ہوا کہ آج تک عملاً امریکہ کا غلام ہے
اور یہی بات موجودہ عراق اور امریکہ کے تناظر میں ٹھیک
بیٹھتی ہے اپنے دفاع کے اختیار کی وجہ سے مالی
اعتبار سے کمزور ہونے کے باوجود شمالی کوریا پر حملہ کرنے کی
امریکہ کی ہمت نہیں پڑ رہی ہے قرآن کریم اپنی
حفاظت کے حق کی اہمیت اس طرح سے ظاہر کرتا ہے کہ حق دفاع کی عدم
موجودگی میں زمین پر اور تو کیا نہ تو عیسائی
راہبوں کے صومعہ (کوٹھرے) بچتے نہ یہود کے عبادت خانے (Synagogue) اور نہ ہی
نصاریٰ کے گرجا گھر اور نہ ہی مسلمانوں کی مسجدیں
بچ پاتیں اور یہ حفاظت و دفاع کی اجازت جنگی ماحول میں
ہے نہ کہ عام حالت میں کہ جس کو چاہا پکڑا اور قتل کرڈالا یہ تو قتل
ناحق ہے اس کی تو اجازت قرآن کریم کسی بھی حالت میں
نہیں دیتا بلکہ اس معاملہ میں اتنی شدت برتتا ہے کہ صرف ایک
انسان یا نفس کا ناحق قتل تمام انسانوں کے قتل کے مساوی ٹھہراتا ہے
اور ایسے قاتل کو قتل کئے جانے سے کم کی سزا نہیں سناتا اور یہ
بھی قابل ذکر امر ہے کہ اپنی دفاع و حفاظت میں اسی حد تک
قوت کا استعمال جائز ہے جس حد تک مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا
ہواوراگر کوئی مسلمان فرد یا گروہ اپنے دشمن کو معاف کرنے پر قادر ہو
تو یہ معاف کرنا افضل و اولیٰ ہے۔ قرآن کریم فرماتا
ہے ”وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ
ولان صبرتم لہو خیر للصابرین“ (سورة النحل آیت نمبر
۱۲۶) قرآن کریم ساری دنیا کے ساتھ نیکی
کرنے کو پسند کرتا ہے بدی و برائی کو پسند نہیں کرتا جیساکہ
”سورة الممتحنہ آیت نمبر۸“ میں فرمان الٰہی ہے ”لاینہاکم
اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوا کم
من دیارکم ان تبروہم وتقسطوا الیہم ان اللہ یحب المقسطین“ اللہ تعالیٰ تم کو منع نہیں
کرتا ان لوگوں سے جو تم سے نہیں لڑتے تمہارے دین کی وجہ سے اور
تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالتے کہ تم ان سے بھلائی کرو اورانصاف و
عدل کا سلوک کرو بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے یعنی
جو لوگ امن پسند ہوں اور مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے ہیں
ان سے قرآن کریم لڑنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ دوستی
کی اجازت دیتا ہے اہل علم سے یہ تاریخی واقعہ بھی
شاید مخفی نہیں ہوگا جب سفر ہجرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رہبر ایک
غیرمسلم عبداللہ بن اریقط تھا بھلا آپ خود سوچئے اگر عوام الناس کو
قرآن کریم یا اس کا رسول قتل کرنے کی یا نقصان پہنچانے کی
ترغیب دیتا تو وہ غیرمسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے ساتھیوں،
ابوبکر اور ان کا غلام۔ سے خوف نہ کھاتا اور کیا وہ خوف زدہ
غیرمسلم آپ کی رہبری کرسکتا تھا اور کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دشمن
کو رہبربناسکتے تھے حق یہ ہے کہ اسلام تو ساری دنیا کے ساتھ امن
وآستی برتنے کا حکم دیتا ہے حتیٰ کہ اس امن وآشتی
برتنے میں کفر وشرک کو بھی برداشت کرتا ہے یعنی ایک
کافر ومشرک کے ساتھ بھی نیکی کرنے کا حکم دیتا ہے جب تک
وہ مسلمان کے ساتھ کوئی نقصان دہ حرکت نہ کرے یعنی جب مسلمانوں
کا وجود ہی کسی کافر ومشرک کی وجہ سے خطرے میں پڑجائے تو
اس حالت میں بدرجہٴ مجبوری حفاظت کی اجازت دیتا ہے
اور ایسے دشمنوں سے دوستی کی اجازت نہیں دیتا ہاں
ان کے حقوق کو غصب کرنے کی اس حال میں بھی اجازت نہیں دیتا۔
آیات قرآنی ملاحظہ فرمائیے: ”وما کان
لنفس ان توٴمن الا باذن اللّٰہ ․․․․ افأنت
تکرہ الناس حتی یکونوا موٴمنین“ (سورة یونس آیت
نمبر۱۰۰) اور کسی نفس کے بس کی بات نہیں کہ
وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر مسلمان ہوجائے پس کیا
اے ہمارے رسول اور اے مسلمانو! تم لوگوں سے نفرت کرتے رہوگے یہاں تک کہ وہ ایمان
لے آئیں یعنی ایمان نہ لانے کی صورت میں بھی
ان سے نفرت نہ کرو۔ اور اسی سورة میں ایک دوسری آیت
۹ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”انما ینہاکم
اللّٰہ عن الذین قاتلواکم فی الدین واخرجواکم من دیارکم
وظاہروا علی اخراجکم ان تولّواہم ومن یتولہم فاولٰئک ہم
الظالمون“ یعنی
اللہ تعالیٰ تم کو منع کرتا ہے دوستی کرنے سے صرف ان لوگوں سے
جنھوں نے مسلمانوں کو قتل کیا صرف دین اسلام کی اتباع کی
وجہ سے اور تم کو یعنی مسلمانوں کو تمہارے گھروں سے نکال دیا
اور ان لوگوں کی مدد کی جنھوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور جو
لوگ یعنی مسلمان اور جو لوگ دشمنان اسلام سے ان کی اسلامی
دشمنی اور مسلم دشمنی کے باوجود ان سے دوستی رکھتے ہیں پس
وہ خدا کے نزدیک ظالم ہیں اس لئے قرآن کریم صرف ان لوگوں سے قتل
وقتال کی اجازت دیتا ہے جو یا تو مسلمانوں کے دین و ایمان
کومٹانے پر تلے ہوں یا مسلمانوں کو جانی مالی نقصان پہنچاتے ہوں
لیکن کسی بھی حال میں امن پسند شہریوں چاہے وہ کسی
بھی مذہب وملت سے تعلق رکھنے والے ہوں قتل و قتال کی اجازت نہیں
دیتا کیونکہ اسلام کا مقصد ہی دنیا میں امن وآشتی
کا پیغام دینا ہے کیونکہ اسلام کا پیغامبر ہی رحمة
للعالمین اور شفیع المذنبیں ہے۔
اب آپ بائبل کی طرف رخ کیجئے
دشمنان دین اور عوام الناس کے ساتھ اہل بائبل کا طرز عمل بھی دیکھئے
حضرت یعقوب علیہ السلام (Jacob) جب عراق سے واپسی پر کنعان کے شہر شکم (Shechem) کے پاس خیمہ
زن ہوئے تو ایک روز آپ کی لڑکی دینہ (Dinah) وہاں کی
عورتوں کو دیکھنے کیلئے شہر میں گئی تو وہاں کے بادشاہ کے
لڑکے نے دینہ کے ساتھ زنا کرلیا اوراس کا باپ بعد میں یعقوب
علیہ السلام اورآپ کے بیٹوں سے معذرت کرنے اوراس لڑکی کو اپنے بیٹے
کے ساتھ بیاہ دینے کی درخواست کرنے آپ کے پاس گیا اوراس
کے صلے میں اپنے ملک میں ہر قسم کی آزادی بنی اسرائیل
کو دینے کا وعدہ کیا بنی اسرائیل نے اس شرط پر شادی
کرنا منظور کرلیا کہ اس کے شہر یا ملک شکم کے سارے بالغ مرد مختون
ہوجائیں جب بادشاہ ہمر (Homer) اوراس لڑکے سمیت
سارے بالغ مرد مختون ہوکردرد سے کراہ رہے تھے اس وقت اس کراہنے کی حالت ہی
میں یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے اس شہر کے سارے مردوں
کو ہمر اوراس کے لڑکے سمیت قتل کردیا یعقوب علیہ السلام
ان کے اس فعل سے بڑے ہی دکھی ہوئے بس آپ ہی فیصلہ کیجئے
کہ ایک زنا کی سزا کیا پورے شہر کے لوگوں کو قتل کر دینا،
دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں جائز ہے کیا یہ
ظلم وستم نہیں ہے کیا کوئی ایک واقعہ بھی قرآن کریم
میں اس قسم کا کسی کی نظر سے گزرا ہے ، نہیں ہرگز نہیں
کیونکہ قرآن کریم تو صرف اور صرف ظلم کی حد تک بدلہ لینے
کی اجازت دیتا ہے ایک قتل یا ایک گناہ کے بدلے میں
ہزاروں گناہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا، بھلا آس پاس کی قوموں
نے اس واقعہ کو سنا ہوگا تو ان کے دلوں میں بنی اسرائیل سے کتنی
دہشت بیٹھتی ہوگی یہ کتنے ظالم لوگ ہیں کہ جنھوں نے
ایک شخص کی ذاتی غلطی کی سزاء میں پورے شہر
کو قتل کردیا ہے (کتاب تخلیق باب ۳۴ آیت ۱ تا
۳۱) اس طرح بنی اسرائیل نے ہمر کی قوم کو امان دے
کر بھی دھوکہ سے ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر ان کے تمام مردوں
کو قتل بھی کردیا اور عورتوں و بچوں کو غلام بنالیا کیا
مسیحی امریکہ نے اس واقعہ کو افغانستان میں
۲۰۰۱/ میں نہیں دہرایا کہ صرف شک کی
بنیاد پر کہ ایک شخص بن لادن اور اس کے آدمیوں نے امریکہ
کے منارائے تجارت پر حملہ کیا تواس کی پاداش میں ایک غیرمجرم
شخص کو ہی نہیں بلکہ پورے ملک افغانستان کو ہی تباہ کردیاگیا
اورآج تک بھی اس کو تباہ کیا جارہا ہے لاکھوں لوگ بے گھر وبار ہی
نہیں ہوچکے بلکہ موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں کیا یہ دہشت
گردی نہیں ہے کیا یہ مسیح علیہ السلام کے اور
ان پرمنزل من اللہ کتاب انجیل کے پرستاروں کیلئے ایک چھوٹے سے
جرم کے لئے اتنی بڑی سزا دینا مناسب ہے؟ یہ تو بائبل میں
امان دینے کا واقعہ اور محض شک کی بنیاد پر پورے ملک کو تباہ
کردینے کا اہل بائبل کا حال ہے۔ اب آپ ذرا قرآن کریم میں
امان دینے کی مثال ملاحظہ کرلیجئے اللہ تعالیٰ سورة
توبہ کی آیت نمبر ۶ میں فرماتے ہیں ”وان احد
من المشرکین استجارک فاجرہ حتی یسمع کلام اللّٰہ ثم ابلغہ
مأمنہ“ یعنی
اگر کوئی مشرک بھی تجھ سے پناہ مانگے تواس کو پناہ دیدے یہاں
تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لیں اور پھر اس کو امن کی جگہ میں
پہنچادے بھلا کون معقول شخص ایسی کتاب کو دہشت گردی کی
حامی کہہ سکتا ہے جس کی امان دینے کے سلسلہ میں یہ
تعلیم ہو کوئی مفسد اور فاسق شخص ہی ایسی امن وامان
سے پُرکتاب پر دہشت گردی کا الزام لگاسکتا ہے۔ یہی نہیں
بلکہ قرآن کریم تو ہمیشہ صلح کو جنگ وجدل پر ترجیح دیتا
ہے کسی بھی حال میں بلاکسی قوی سبب کے جنگ پر اپنے
متبعین کو نہیں اکساتا ہے (صلح حدیبیہ میں مسلمانوں
کا طرز عمل) مثال کے طورپر سورة انفال میں آیت نمبر
۶۱-۶۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”وان
جنحوا للسلم فاجنح لہا وتوکل علی اللّٰہ انہ ہو السمیع العلیم
وان یریدوا ان یخدعوک فان حسبک اللّٰہ ہو الذی ایدک
بنصرہ وبالموٴمنین“ اوراگر وہ جھکیں صلح کی طرف تو، تو بھی
جھک اسی طرف اور بھروسہ کر اللہ پر بے شک وہ ہی سننے والا اور جاننے
والا ہے اوراگر وہ چاہیں کہ تجھ کو دغا دیں تو تجھ کو کافی ہے
اللہ اسی نے تجھ کو دیا زور اپنی مدد کا اور مسلمانوں کا۔
قرآن کریم کا مقصد خونریزی کرنا اور دہشت گردی پھیلانا
نہیں بلکہ اس کا مقصد قوت کے استعمال سے اعلائے کلمة اللہ اور قانون فطرت کا
نفاذ ہے وہ ہرحال میں دنیاکو امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتا ہے
چاہے اس کیلئے کچھ مقدار میں قوت ہی کا استعمال کیوں نہ
کرنا پڑے۔ دنیا کو ایک بڑی تباہی سے بچانے کیلئے
تھوڑی سی قربانی کو درست قرار دیتا ہے جس طرح سے ایک
ماہر وحاذق طبیب دواء سے مریض کے ٹھیک نہ ہونے کی صورت میں
عمل جراحی (Operation) کے ذریعہ مریض
کو تھوڑی سی پریشانی میں ڈال کر پوری زندگی
کیلئے امن وامان کی راہ اس کیلئے ہموار کردیتا ہے پس یہ
ہے اسلام میں قوت کے استعمال یا جہاد کا منشاء جس طرح سے ڈاکٹر یا
طبیب عمل جراحی کو کوئی بھی معقول انسان مریض پر
ظلم و ستم کرنا قرار نہیں دیتا اسی طرح سے قرآنی، خدائی
اور نبوی طریق پر جہاد کو دہشت گردی یا انسانیت کے
خلاف ظلم و ستم قرار نہیں دیا جاسکتا قرآن کریم مظلوموں اور
عورتوں اور بچوں کا خاص خیال رکھتا ہے جیساکہ سورة نساء کی آیت
نمبر ۷۵ میں باری تعالیٰ کاارشاد ہے
”ومالکم لاتقاتلون فی سبیل اللّٰہ والمستضعفین من الرجال
والنساء والولدان الذین یقولون ربنا اخرجنا من ہذہ القریة
الظالم اہلہا واجعل لنا من لدنک ولیاً واجعل لنا من لدنک نصیراً“ ظاہر ہے ایسے معذوروں مظلوموں کی
حفاظت کیلئے قوت کا استعمال اگر لازمی ہوتو اس کا استعمال کرنا پڑے گا
ورنہ اپنے پاس قوت ہونے کی صورت میں بھی مظلومین کی
مدد نہ کرنا اپنے فرض سے انحراف کرنے کے مترادف ہوگا جس کی پاداش میں
ایسے شخص کیلئے عذاب الٰہی حرکت میں آسکتا ہے اور
وہ مظلومین کی کسی اور ذریعہ سے مدد کراسکتا ہے۔
فاروق اعظم کے زمانہٴ خلافت میں
مسلمانوں کے ترجمان نے رستم سے اپنی آمد کا جو مقصد بتایا تھا اسکا
مفہوم بھی یہی تھا کہ بندوں کو بندوں کی بندگی سے
نکال کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف رہبری
کرنا اور دنیا کی تنگی سے نکال کر دنیا کی وسعت میں
پہنچانا اور (آخرت تو ہے ہی موٴمنین اورمتقین کیلئے)
پس مندرجہ بالا اسلامی طرز عمل سے یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ اسلام
ہرحال میں امن وامان چاہتا ہے اور دنیا کو خیر کی طرف
بلاتا ہے اوراس کوشش میں اگر قوت کا استعمال کرنا پڑے تواس سے بھی صرف
نظر کرنے کی اپنے متبعین کو اجازت نہیں دیتا اب آپ ذرا
پھر بائبل کی طرف لوٹ آئیے۔ بائبل کے دوسرے حصہ یعنی
عہدنامہ جدید جس کا تعلق سراسر نصاریٰ سے ہے اس میں یعنی
انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی
طرف منسوب اقوال کا بھی ملاحظہ فرمالیجئے کہ انجیل جسکی
تعلیم کو حددرجے امن سے پُر ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے
اورجس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے متبعین
سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگرکوئی تمہارے ایک گال
پر چپت مارے تو دوسرا بھی اس کو پیش کردو اگر کوئی ایک میل
دوڑائے تو، تو دو میل دوڑ جا اوراگر کوئی تیری قمیص
لینا چاہے تواسکو اپنا کوٹ بھی دیدے (انجیل متٰی
باب ۵ آیت ۳۸-۴۲) یہی انجیل
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ قول بھی
منسوب کرتی ہے:
(I have
come to set fire to the earth and how I wish it werk al ready kindled. I have a
baptism to undergo and what constraint. I am under until the ordeal is over! Do
you suppose I came to establish peace on earth? No indeed I have come to bring
divison, for from now on five members of a family will be divided three against
two and two against three; father against son and son against father' mother
against daughter and daughter against mother' mother against son's wife and
son's wife against her mother-in-law')
میں زمین پر آگ بھڑکانے آیا
ہوں اور اگر آت لگ چکی ہوتی تو میں کیا ہی خوش ہوتا
لیکن مجھے ایک بپتسمالینا ہے اورجب تک وہ نہ ہولے میں بہت
ہی تنگ رہوں گا کیا تم گمان کرتے ہو میں زمین پر صلح کرنے
آیا ہوں؟ میں تم سے کہا نہیں بلکہ جدائی کرنے آیا
ہوں کیونکہ اب سے ایک گھر کے پانچ آدمی بھی آپس میں
مخالفت کریں گے دو تین سے اور تین دو سے باپ بیٹے سے اور
بیٹا باپ سے اور ماں بیٹی سے اور بیٹی ماں سے اور
ساس بہو سے بہو ساس سے۔ (انجیل لوقا باب ۱۲ آیات
۴۹ تا ۵۳)
اور انجیل متٰی باب
۱۰ آیت۳۴-۳۶ میں حضرت عیسیٰ
علیہ السلام یہ فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں (You most not ghink that i have come to
bring peace to earth; I have not come to bring peace but a sword. I have come
to set a man against his fater a doughter against he mother a son's wife
against her mother-in-law; and a man will find his enemies under his roof) یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرنے آیا
ہوں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں کیونکہ میں اس لئے آیا ہوں
کہ آدمی کو اس کے باپ سے بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو
اس کی ساس سے جدا کردوں۔
مندرجہ بالا آیات اناجیل اور
انجیل متٰی کے اس ناقابل عمل مشورہ یا ترغیب کہ اگر
کوئی ایک گال پر چپت مارے تو دوسرا پیش کردو، کی روشنی
میں تاریخ نصاریٰ پر بھی نظر ڈالی جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ نصاریٰ کا عمل اکثر و بیشتر متٰی
اور لوقا کی آیات آتش اور آیات تفریق بین الناس پر
ہی عمل رہا ہے۔ دائیں اور بائیں گال والی آیت
پر شاید ہی کبھی عمل رہا ہو۔ عالمی جنگ اوّل اور
جنگ ثانی میں پوری دنیا نے نصاریٰ کا برتاؤ دیکھ
لیا ہے کہ زمین کا کتنا بڑا حصہ آگ و خون سے بھرگیا کیا
اس قتل و غارت کے ذمہ دار اہل بائبل نہ تھے۔ کیا کبھی قرآن کریم
کے ماننے والوں نے دنیا میں ایسی آگ لگائی ہے کیا
قرآن کریم کے ماننے والوں نے اتنے بڑے پیمانے پرکبھی دنیا
کو خون میں رنگا ہے جو کام یعنی امن و آشتی کی فضا
بائبل کی تعلیمات پانچ سو پچاس سال میں قائم نہ کرسکی (یورپ
کی خوں ریزی کی تاریخ) وہی کام قرآن کریم
کی تعلیم نے پچیس سال سے کم کے عرصے میں انجام دیدی
(زمانہ نبوی مدنی دور دس سال خلافت صدیقی اور خلافت فاروقی
تقریباً ساڑھے بارہ سال) کیا اہل علم یہ نہیں جانتے کہ
نصرانیت و بائبل کو خیر آباد کہہ کراسلام و قرآن کی تعلیم
کو قبول کرنے والے حاتم طائی کے بیٹے عدی بن حاتم نے اس عورت کو
نہیں دیکھا تھا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین
گوئی کے مطابق مقام حراء سے چل کر حجاز پاک پہنچ کر مکة المکرمہ میں
حاضر ہوئی تھی بیت اللہ کی زیارت کی تھی
اوراس سیکڑوں کیلومیٹر کی مسافت کو اکیلے ہی
طے کیا تھا اور سارے لوگوں کو ایسا پایا تھا جیسا کہ اس
کے اپنے ہی خاندان کے لوگ ۔ یہ تھا قرآن کریم کی
تعلیم کا اثر! کیا آج بھی کوئی ایسی مثال پیش
کی جاسکتی ہے؟ حق یہ ہے کہ قرآن کریم دہشت گردی کا
حامی نہیں بلکہ وہ سراسر ہدایت کا حامی ہے اس نے جس دین
کو پھیلایا ہے اس کا نام اسلام ہے جو سراسر سلامتی کو ہی
عالمگیر پیمانے پر پھیلانے کی ہروقت فضا بناتا ہے اب ایک
بار پھر قرآن کریم اور بائبل کی طرف رجوع فرمائیے پھر پیغمبر
اسلام اور پیغمبر عیسائیت کے مقاصد پر بھی روشنی
ڈال لیجئے جو ان دونوں مقدس ہستیوں پر نازل ہونے والی آسمانی
کتابوں قرآن کریم میں (محمد رسول اللہ کیلئے) اور انجیل میں
(حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے) وارد ہوا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا مقصد ان الفاظ
میں بیان کیا ہے وما ارسلناک الا رحمة للعٰلمین یعنی ہم نے آپ کو نہیں
بھیجا ہے مگر پوری دنیا کیلئے تمام عالموں کیلئے
سراپا رحمت بناکر اور دنیا نے آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مقصد کے
اظہار کو بارہا دیکھ بھی لیا ہے اگر آج بھی اسوئہ محمدی
کے مطابق عمل کیا جائے تو دنیا سراپا امن وآستی خیر و خوشی
کا گہوارہ بن جائے۔ مدینہ کے اوس و خزرج کا کیا حال تھا کیا
صرف چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ ایک دوسرے کا گلا نہیں کاٹ دیتے
تھے کیا صرف غیر ارادی عمل سے گھوڑے کے آگے بڑھ جانے سے فریق
ثانی اپنی تذلیل نہیں سمجھتا تھا اور کیا اپنی
اس تذلیل کا بدلہ دشمن سے جنگ کی شکل میں نہیں لیتا
تھا کیا عربوں کے چھوٹی چھوٹی باتوں پر سالہا سال (ستر ستر
سالہ) جنگوں کے واقعات دنیا نے نہیں سنے ہیں کیا سیکڑوں
لڑکیاں قرآن کریم کے نزول سے قبل زندہ نہیں دفنائی جاچکی
تھیں کیا قرآن کریم نے ہزاروں لڑکیوں کو زندہ درگور ہونے
سے نہیں بچالیا اور کیا اس مذموم رسم کو قرآن کریم نے ہمیشہ
ہمیشہ کیلئے ختم نہیں کردیا (سورة کورت) کیا قرآن
کریم نے ان لوگوں کو جو بات بات پر ایک دوسرے کی گردن مارنے پر
تیار رہتے تھے ایک دوسرے کی حفاظت میں جان گنوانے والا نہیں
بنادیا (فضائل اعمال حکایت صحابہ) اور خود بھوکے رہ کر دوسروں کو پیٹ
بھرکر کھانا کھلانے والا نہیں بنادیا (ویوٴثرون
علی انفسہم ولو کان بہم خصاصة) )سورة حشر آیت۹) اورجو دوسروں کا سب کچھ لوٹ
کر بھی چین نہ لیتے تھے وہ ہروقت دوسروں پر اپنا سب کچھ لٹاکر
بدلہ لینا تو کیا دوسروں کی زبان سے شکریہ کے الفاظ سننے
کی تمنا نہ کرنے لگے تھے (سورة الدہر آیت۸-۹) پس ایسی
کتاب کو دہشت گرد کہنا کسی انسان کا کام نہیں شیطان کا کام ہے
اس قرآنی معجزاتی اثر کے بعد جو امن کے میدان میں قرآن کریم
کی وجہ سے ظاہر ہوا ہے ایک نظر پھر سے مقصد عیسیٰ
علیہ السلام اور تعلیم انجیل کے اثرات پر بھی ڈال لیجئے
کیا آپ نے اسی مضمون میں یہ نہیں پڑھ لیا ہے
(نعوذ باللہ) عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں یہ
نہ سمجھو کہ میں دنیا میں امن قائم کرنے آیا ہوں میں
دنیا میں تلوار چلانے آیا ہوں یہاں تک کہ تفریق کایہ
عالم ہوگا کہ بھائی بھائی سے باپ بیٹے سے اور ساس بہو سے اور
بہو ساس سے الگ ہوجائے گی (متٰی باب ۱۰۔ آیت
۳۴-۳۶، لوقا باب ۱۲۔ آیت
۴۹-۵۳) شاید اسی طرح کی آیت اناجیل
کے اثرات آج بھی یورپ اور امریکہ میں پائے جاتے ہیں
ہم یہ نہیں کہتے کہ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ علیہ
السلام یا آپ پر منزل من اللہ انجیل دنیا میں خلفشار پیدا
کرنے کیلئے آئی تھی بلکہ ہر ایک نبی کی طرح
آپ بھی خیر وامن ہی پیدا کرنے کیلئے آئے تھے یہ
تو دشمنوں کی تحریفات کے نتائج ہیں جن کی وجہ سے انجیل
محرف ہوگئی اور محرف انجیل کی وجہ سے تعلیمات انجیل
بھی محرف ہوگئی جس کا نتیجہ دنیا میں خلفشار کی
شکل میں نظر آیا کیونکہ محرف بائبل میں بستیوں کی
بستیوں کو شہروں کے شہروں کو دنیا کے نام پر بنی اسرائیل
کے ذریعہ اجاڑ دئیے جانے کا ذکر ہے اس بربادی اور خود حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کے ذریعہ دنیا میں آگ لگانے کی ترغیب
کی قارئین انحیل پڑھتے ہوں گے تو ان میں ضرور دنیا
میں اپنے مقدس نبی اور مقدس کتاب کے مطابق عمل کرنے کا ولولہ پیدا
ہوتا ہوگا بائبل میں ایک جگہ مذکور ہے کہ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ
ہمارے خلاف ہے۔ یہی بات اس وقت امریکن صدر مملکت جارج ڈبلیوبش
جگہ جگہ کہہ رہے ہیں جس کے نتیجہ میں دنیا میں یا
تو صرف امریکہ کے حامی نظر آتے ہیں یا صرف اس کے مخالف
کوئی بھی ملک ایمانداری اور دیانتداری کے
ساتھ اپنی بات، اپنی عسکری اور مالی قوت کم ہونے کی
وجہ سے نہیں کہہ پارہا ہے جس کے نتیجہ میں ڈر یہ ہے کہ کہیں
دنیا میں بہت بڑی بربادی رونما نہ ہوجائے یا پھر
امریکہ پر ہی من جانب اللہ کوئی عذاب الیم نازل نہ ہوجائے
کیونکہ جب ظلم و ستم کو کوئی روکنے والا مجبوراً نہیں ہوتا تو
پھر اللہ تعالیٰ اس برائی کو اور برائی کے منبع کو ختم
فرمادیتے ہیں اب پھر آپ قرآن کریم اور صاحب قرآن کی طرف ایک
بار لوٹ آئیے اور ملاحظہ فرمائیے کہ اپنے رسول کا کیسا اخلاق
مرسل رسول نے بنایا ہے اور اس کے متبعین کو کس طرح کے اخلاق برتنے کی
ترغیب دی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ
اپنے رسول کیلئے فرماتے ہیں ”وانک لعلیٰ خلق عظیم“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنے اس اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ اس طرح سے کیا ہے کہ خالد بن ولید
جس کی وجہ سے غزوئہ احد میں شاید مدینہ کا ایک بھی
گھر ایسا نہیں بچا تھا کہ جس کا کوئی نہ کوئی فرد شہید
نہ ہوا ہو اور شاید کوئی گھر ایسا نہیں تھا کہ جس میں
کہرام نہ مچ گیا ہو حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت
حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی جام شہادت پینا پڑا اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی
ہوگئے وہی خالد جب اسلام قبول کرنے مدینہ آتے ہیں توان کیلئے
ان کے اعزاز میں چادر بچھادی جاتی ہے یعنی آج کل کی
زبان میں (V.I.P Treatment) یا (Red carpet Treatment) دیا جاتا
ہے۔ قرآن کریم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اخلاق کے اعلیٰ
معیار کا مصداق قرار دیتا ہے کہ آپ سے زیادہ با اخلاق انسان دنیا
میں نہ تو کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو تو
بیان کرنے کیلئے دفتر کے دفتر بھی ناکافی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت ساری
مخلوق کے نفع و نقصان کا فکر رکھتے تھے حتی کہ قرآن کریم نے یہاں
تک کہہ دیا کہ کیا آپ اپنی جان کو ہلاک کرڈالیں گے اگر
اہل دنیا ایمان نہ لائیں (لعلک باخع
نفسک ان لا یکونوا موٴمنین)(سورة الشعراء آیت:۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام انسانوں
کیلئے رنج وغم کرنا اس وجہ سے تھا کہ آپ جانتے تھے کہ ایمان نہ لانے کی
صورت میں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دوزخ میں تو جانا
ہی پڑے گا ان کی عارضی دنیا بھی اگر برباد نہ ہوئی
تو خطرے میں ضرور پڑ جائیگی قرآن کریم تو تمام انسانوں کو
اتنا پیارکرتا ہے کہ ایک انسان کا قتل ناحق گویا سارے انسانوں
کا قتل ناحق ہے بھلا اس سے زیادہ امن وامان اورانسانیت سے ہمدردی
کی اور کیا بڑی مثال ہوسکتی ہے آیت قرآنی اس
طرح سے ہے ”من اجل ذلک کتبنا علی بنی
اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیر نفس اوفساد فی الارض فکانما قتل
الناس جمیعًا ومن احیاہا فکانما احی الناس جمیعًا“ (سورة مائدة آیت
نمبر۳۲) یہ قرآنی آیات صاف ظاہر کرتی ہے کہ
قرآن کریم کا قتل ناحق اور فساد فی الارض سے کوئی واسطہ ہی
نہیں بلکہ ایسے مذموم فعل کی مذمت ہی نہیں کرتا
بلکہ اس کو سخت سزا بھی سناتا ہے (سورئہ مائدہ آیت:۴۵)
۔ قرآن کریم تمام انسانوں کی دنیا و آخرت کی ہر قسم
کی بھلائی پر حریص ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کو آپ کے سچے فرمانبرداروں کو حددرجہ صبر تحمل برتنے کی تلقین
کرتا ہے اور جہاں تک ہوسکے خون بہانے سے کوسوں دور رہنے کی ترغیب دیتا
ہے لیکن جہاں ظلم و ستم کو روکنے کا کہنے سننے کا اور سمجھانے بجھانے کا
راستہ بالکل ہی رک جائے اورحق کے مغلوب ہونے کا اور باطل کے غالب ہونے کا
خطرہ لاحق ہوجائے وہاں پر قرآن کریم اپنے متبعین کو حبیب کی
حدود سے نکل کر طبیب کے دائرے میں جانے کی ترغیب دیتاہے
تاکہ عمل جراحی کے ذریعہ مادئہ فساد نکل جائے اور مریض حیات
جاویداں حاصل کرسکے اگرایک شخص جس نے بہت خون بہایا ہو وہ سچی
توبہ کرکے ایمان میں داخل ہوجائے تواس کو فوراً قبول کیا جاتاہے
اوراس وجہ سے کہ بظاہر اس نے قتل کے خوف سے ایمان کا کلمہ پڑھا ہے اس کو
مارا نہیں جاسکتا کیونکہ ایمان کا ذرا سا بھی حصہ ذلیل
دنیا کے مقابلہ بہت ہی اعلیٰ وارفع ہے جسکی بنیاد
پر کسی بھی آدمی کو اس دنیا سے دس گنی بڑی
جنت ملنے کا وعدئہ رسول ہے۔
اس کے برخلاف عہدنامہٴ قدیم کی
کتاب خروج اور کتاب گنتی کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام
اور یوشع علیہ السلام کے زمانہ کے جہاد میں کتنی بستیوں
کو صرف زمین کا ٹکڑاحاصل کرنے کیلئے نیست و نابود کردیاگیا
دین موسوی اختیار کرنے کی صورت میں بھی ان کیلئے
جان بچانے کی کوئی سبیل نہیں تھی لیکن اسلام
کسی بھی شخص کا ظاہراً بھی اسلام میں داخل ہونا قبول کرتا
ہے چاہے وہ باطناً مسلمان ہو یا نہ ہو اس کو ہر طرح سے امان دی جاتی
ہے اس کا قتل کسی بھی حال میں جائز نہیں (سورئہ مائدہ آیت:۹۴)
اس کے برخلاف عہدنامہ جدید میں نہ جانے کتنے موقع پر حضرت عیسیٰ
علیہ السلام یہود سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ تمہاری
مثال سوکھی لکڑی کی طرح ہے جس کو جلنا ہی جلنا ہے کسی
بھی طرح سے تمہارا بچاؤ نہیں جبکہ قرآن کریم میں اللہ
تعالیٰ کا ہر طرح کے سارے گناہوں کو معاف کرنے کا اعلان عام ہے اللہ
تعالیٰ سورة الزمر آیت:۵۳ میں فرماتے ہیں
”قل یا عبادی الذین
اسرفوا علی انفسہم لاتقنطوا من رحمة اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعاً“ (سورة الزمر آیت:۵۳)
پس اخیر میں اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ اہل دنیا اور اہل
ہواء قرآن کریم کی جتنی چاہے مذمت کریں انشاء اللہ اس کی
روشنی اس کا نور اس کا اثر زائل ہونے والا نہیں وقتی طور پر
سورج کے اوپر گہرا بادل آنے سے سورج ڈھک تو ضرور جاتا ہے لیکن بادل کو چھٹنا
ضرور ہوتا ہے کیونکہ اس کا وجود دوام کو درکار ہی نہیں اور بادل
چھٹتے ہی سورج صاف نظر آتا ہے ایسے ہی دشمنان اسلام اپنی
مادی طاقت یا صحافت کے زور پر حق و باطل اور باطل کو حق کہنے میں
چاہے جتنا زور صرف کردیں حق حق ہے باطل باطل ہے اور قرآن حق ہے اور وہ ہمیشہ
غالب رہا ہے اور قیامت تک غالب رہے گا اس میں کسی قسم کا تغیر
وتبدل ردوبدل کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ اس کا حافظ اللہ
تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ نے حق کو باطل پر غالب کرنے
کااعلان کررکھا ہے پس قرآن کاکچھ بگڑنے والا نہیں انشاء اللہ دشمن ہی
ختم ہوجائیگا جس طرح قرون اولیٰ (یعنی زمانہٴ
نبوی اور زمانہٴ صحابہ میں حق غالب رہا اور باطل بھاگ کھڑاہوا
اسی طرح انشاء اللہ حق پھر غالب ہوگا اور باطل بھاگ کھڑا ہوگا کیا دنیا
نہیں جانتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے روز
بیت اللہ شریف میں بتوں کو گراتے ہوئے یہ اعلان فرمارہے
تھے ”قل جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان
زہوقا“
(سورة بنی اسرائیل آیت:۸۱-۸۲) اور ”قل جاء
الحق ومایبدء الباطل ومایعید“ (سورة الفاطر آیت:۴۹) پس
تاریخ آج بھی اپنے آپ کو دوہراسکتی ہے بشرطیکہ اہل ایمان
اسوئہ نبوی صلی اللہ
علیہ وسلم پر جلدی گامزن ہوجائیں دشمنان اسلام قرآن کریم
پر چاہے کتنے ہی الزام لگائیں اس کاکچھ بگاڑ نہیں سکتے امن کو
فساد ثابت نہیں کرسکتے وہ تو سارے انسانوں کیلئے ہدایت ہی
ہدایت ہے اور بطور خاص موٴمنین کیلئے شفاء و رحمت ہے اور
دشمنان دین کو تواس پر عمل نہ کرنے سے سراسر نقصان ہی ہوگا۔ ہاں
دشمنان دین اور دشمنان قرآن کا فائدہ اسی میں ہے کہ اس نسخہٴ
شفاء (قرآن کریم) کو جلدی ہی استعمال کرنا شروع کردیں
ورنہ امتداد زمانہ سے مرض مہلک ہی ہوتاجائیگا جو آخر کار جان لیکر
چھوڑے گا پس یہ آفت قرآن کریم کی طرف سے نہیں آئے گی
بلکہ مریض ظالم کی طرف سے اس نسخہٴ شفاء کو استعمال نہ کرنے
بلکہ اس سے نفرت کرنے اوراسکو مٹانے کی کوشش کی وجہ سے آئیگی
کما قال اللہ تعالیٰ: ”واما الذین فی قلوبہم مرض فزادتہم
رجسا الی رجسہم وماتوا وہم کافرون“ (سورة توبہ آیت:
۱۲۵) پس قرآن کریم محرک منکرات نہیں محرک معروفات
ہے حامیٴ فساد نہیں حامیٴ امن ہے مہلک الناس نہیں
شفاء القلوب ہے یہ مبارک کلام مبارک مہینے میں مبارک ذات پر
بابرکت ذات الرحمن الرحیم کی طرف سے نازل ہوا ہے (شہر رمضان
الذی انزل فیہ القرآن ہدیً للناس وبیّنٰتٍ من الہدیٰ
والفرقان)
(آیت:۱۸۵) اور یہ کہ ”وننزل
من القرآن ماہو شفاء ورحمة للموٴمنین“ (سورة بنی اسرائیل آیت:۸۱-۸۲)
جو انسانوں پر ظلم و ستم نہیں کرتا بلکہ ظلم و ستم کو رفع کرنے اور تمام
انسانوں بلکہ تمام مخلوق کو اندھیرے سے روشنی کی طرف نکالنے
والا ہے جیسا کہ باری تعالیٰ اپنے کلام کی اس آیت
میں فرماتے ہیں ”یخرجہم من الظلمات الی
النور“
(سورة البقرة آیت:۲۵۷) جس مبارک ذات پر یہ کلام
الٰہی نازل کیاگیا اس کی شان یہ ہے کہ وہ
تمام عالم کیلئے سراسر رحمت ہے ہدایت ہے اور ان کی ہر قسم کی
فلاح دارین کیلئے ہروقت کوشاں وساعی ہی نہیں بلکہ
حریص ہے یہاں تک کہ ان کی بھلائی کیلئے اپنی
جان تک کو ہلاکت میں ڈالنے کو تیار نظر آتا ہے آیات قرآنی
ملاحظہ فرمائیے ”لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیہ
ما عنتم حریص علیکم بالموٴمنین روٴف الرحیم“ (سورة یونس آیت:۱۲۸)
”لعلک باخع نفسک الا یکونوا موٴمنین“ (سورة الشعراء آیت:۳) پس وہ
کلام پاک یعنی قرآن کریم جسکی مذکورہ بالا شان ہواس پر
دہشت گردی کا الزام لگانا سراسر غلط ہی نہیں بلکہ اس انسان کو
عقل سے عاری ہی کہاجاسکتا ہے جواس طرح کے افضل ترین الفاظ کو ایسے
عالی شان عالی مرتبت منزل من اللہ کتاب امن کو کتاب دہشت گردی
کہے پس اخیر میں ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ہی
حوالے کئے جانے میں عافیت ہے اگر وہ چاہے تو انکو ہدایت دیدے
اور اگر وہ چاہے تو مناسب حال سزا دیدے ”فان
تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم“ (سورة المائدہ آیت:۱۱۸)
کتابیات
(۱) القرآن
الکریم - ترجمة معناہ وتفسیرہ الی
اللغة الاردیة، شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن، تفسیر حضرت
مولانا شبیر احمد عثمانی․
(۲) معارف
القرآن۔ حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ مکتبہ
مصطفائیہ دیوبند۔
(۳) ریاض
الصالحین، امام الحدیث الحافظ محی الدین ابی زکریا
یحییٰ بن اشرف النووی ، شریف بک ڈپو نظام الدین،
دہلی۔
(۴) رحمة
للعالمین حضرت مولانا قاضی سلیمان منصور پوری۔
(۵) تاریخ
اسلام۔ حضرت مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی۔
(۶) التاریخ
الیہودی العام، الشیخ صابر طعمیة دار الجلیل ببیروت
۱۹۷۵۔
(۷) بائبل
سے قرآن تک۔ حضرت مولانا محمد تقی عثمانی پاکستانی۔
(۸) اطلس
القرآن: الدکتور شوقی ابوخلیل دارالسلام
۱۴۲۴ھ۔
(۹) قصص
القرآن: حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ندوة المصنّفین اردو
بازار جامع مسجد دہلی ۱۹۸۰/۔
(۱۰) تفسیر
ابن کثیر: علامہ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ۔
(۱۱) روح
المعانی: مفتی بغداد ابی الفضل شہاب الدین السید
محمود الآلوسی البغدادی متوفی ۱۲۷۰ھ
ادارة الطباعة المصطفائیہ دیوبند یوپی۔
(۱۲) تفسیر
ماجدی: مولانا عبدالماجد دریا آبادی۔ طابع الناشر مجلس
تحقیقات ونشریات اسلام لکھنوٴ۔
(۱۳) کتاب
مقدس: عہدنامہ قدیم و عہدنامہ جدید۔ برٹش فارین بائبل
سوسائٹی (انار کلی لاہور)
English
Books
1 - The New English Bible Oxford University
press cambridge University press 1981
2 - Islam versus Ahl-AI-kitab Taj company
Turkman Gate Delhi 1982
3 - Helly's Bible Hand book 24th Edition
1982 USA
4 - Bible (Commentry)-Lions Hand book to the
Bible USA
5 - Holy Boble (Protestan-ts): King James-
1611 AD
Printed by Authority-collins clear Type
press for the waverly book company Ltd
6 - Holy Bible (catholic Douay version)
published with the Approbation of His Eminence-samuel cardinal stritch Archibishop
of shicago USA
7 - Bible in the making -Geddes, mac gregor
USA
8 - Encyclopaedia of Religion and Ethics
Edited by James Hastings Assisted by John.
A- Selbeie and
Louis H. Gray (M.A Ph.D). 12 Volumes.
9 - Encyclopaedia Britanica (Macro and Micro
version)
10- Personalities of the old testaments.
Fleming james 1939
11- Gospal of Barnabas (Joseph)-Aishah Banvi
Publishing company Karachi
12- Holy Quran- Text,Meaning and
commentry-Abdullah Usuf Ali
13- Holy Quran (Arabic Text with Translation
and commentry in English by Moulana Abdul Majid Daryabadi First Edition 1957
Taj Company Lahor & Karchi)
14- The preaching of Islam (A History of the
propagation of the Muslim Faith) T.W.Arnold, first published 1913
15- World religions-Warren Matthew, Old
Dominion University West publishing company 1991.
16- Lions Hand book to the Bible USA
17- The
Glorious Quran (Text, Meaning and commentry) Abdul Majid Daryabadi. Islamic
foundation 2001 AD.
18- Talmud-
Ethics of the Talmud by travers Herford New York. Schocken 1962.
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد:
90 ،ربیع الاول1427 ہجری مطابق اپریل2006ء